"*قلم کے وارثوں کو کون روک سکتا ہے* ؟"
تحریر ۔۔ڈاکٹر زاہد عباس چوہدری ۔
ذرائع بعض اوقات ایسے ایسے انکشافات کر دیتے ہیں۔ جو ذہنی طور پر قابل قبول نہیں ہوتے لیکن (تن ورتی) یعنی جو خود پہ بیتی ہو ۔ میں ذرائع کے انکشافات اگر اسی حقیقت سے مطابقت رکھتے ہوں۔ تو قبول کرنے پڑتے ہیں۔
عوامی پریس کلب ضلع چکوال ایک حقیقت ہے۔ جسے نہ تسلیم کرنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ الحمدللہ عوامی پریس کلب ضلع چکوال اپنا حق مانگ رہا ہے ۔جسے تسلیم کرنا ہی پڑے گا۔
پرانے دور میں پریس کلب کی رجسٹریشن ضلع کا سربراہ جسے ڈی سی او کہا جاتا تھا کرتا تھا۔
لیکن موجودہ وقت میں حالات کے مطابق پریس کلب کی رجسٹریشن کروانا گویا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ، زندگی صحافت میں گزر گئی۔ اور ڈپٹی کمشنر چکوال ہمیں صحافی مان نہیں رہی عجیب لمحہ فکر ہے؟
صحافت کی ابتداء روزنامہ اساس راولپنڈی سے کی۔ اور بعد ازاں روزنامہ کائنات اسلام آباد روزنامہ اذکار اسلام آباد روزنامہ پاکستان اور دیگر قومی اخبارات میں ہزاروں کالم لکھنے کے فرائض سر انجام دیے، کئی سال تک صرف روزنامہ اساس راولپنڈی کے لیے لکھا سچ لکھنے کی پاداش میں چونکہ دور ایک ڈکٹیٹر کی چھتری کے نیچے ضلعی نظامت کا تھا۔ اس لئے خمیازہ بھی بھگتنا پڑا، جھوٹے فوجداری مقدمات اور ڈیفامیشن کے مقدمات میں پھنسانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ جو کہ رائیگاں گئی۔ اور اللہ تعالیٰ نے راقم الحروف کو عزت و مرتبے سے نوازا۔
وقت گزرتا گیا۔ تین سال قبل کچھ دوستوں کی فرمائش پر عوامی پریس کلب ضلع چکوال کی بنیاد رکھی گئی۔ اور کچھ ہی وقت میں عوامی پریس کلب ضلع چکوال کے مظبوط ترین فورم کا ہر جگہ ہر ادارے میں نام بولنے لگا۔
کئی ماہ قبل ہم نے عوامی پریس کلب ضلع چکوال کی قانونی طور پر رجسٹریشن اپلائی کی۔ جس کی باقاعدہ طور پر آن لائن درخواست اور تفصیلات محکمہ ہوم ڈیپارٹمنٹ گورنمنٹ آف پنجاب کو قانون کے مطابق پورٹل پر دی گئیں۔
مقامی طور پر فائل متعلقہ برانچ جسے ڈی او انڈسٹری کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ کے انچارج حامد بھٹی کے حوالے کی گئی چکوال کی متعلقہ برانچ کی طرف سے دو لیٹر ایشو کیے گئے ۔ جن میں پریس کلب کے ممبران کی ویریفکیشن ڈی پی او چکوال کی وساطت سے سٹی چکوال نے دفتر کے حوالے سے کی ، جبکہ ممبران کے متعلقہ تھانوں سے بھی پولیس ویریفکیشن کروا کے جمع کروائی گئی۔ جس کے مطابق عوامی پریس کلب ضلع چکوال مکمل طور پر کلیئر ڈیکلیئر کیا گیا ، جبکہ اسسٹنٹ کمشنر چکوال کی طرف سے محکمہ مال کے افسران کی وساطت سے پریس کلب کے ممبران کی حاضری اور دفتر کی جگہ کو مکمل طور پر چیک کرنے کے بعد کلیئرنس دے دی گئی۔
ہوم ڈیپارٹمنٹ گورنمنٹ آف پنجاب کی طرف سے سی ٹی ڈی اور سپیشل برانچ چکوال کو ممبران کی ویریفکیشن اور سیکیورٹی کلیئرنس کا ٹاسک دیا گیا۔ جو کہ مکمل طور پر اوکے ہونے اور دونوں اداروں کی طرف سے مثبت رپورٹ ارسال کرنے کے بعد ہوم ڈیپارٹمنٹ گورنمنٹ آف پنجاب پاکستان نے این او سی جاری کر دیا۔
ہوم ڈیپارٹمنٹ گورنمنٹ آف پنجاب کے این او سی کو ڈی او انڈسٹری جناب حامد بھٹی نے قانون کے مطابق اے ڈی سی جی چکوال اور ڈپٹی کمشنر چکوال کو فارورڈ کرنا تھا ، اپنے وکلاء کے ہمراہ اور پریس کلب کے ارکان پہ مشتمل وفود کے ہمراہ بار بار ملاقاتیں کرنے کے باوجود بھی ڈپٹی کمشنر چکوال کی طرف سے رجسٹریشن لیٹر جاری نہ ہوا ۔تو سوچ میں پڑ گئے۔ کہ معاملہ کیا ہے۔ مزید تسلی کے لیے وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کے پورٹل پہ کمپلیین کر دی۔ جس کے جواب میں متعلقہ آفس کے طرف سے چند ایسے اعتراض لگائے گئے۔ جو پہلے ہی کلیئر تھے ۔اعتراضات کا مفصل تحریری جواب بھی دیا گیا ، لیکن اس کے بعد بھی مکمل خاموشی ہی رہی،
بعد ازاں چھان بین کی گئی۔ تو علم ہوا کہ صرف عوامی پریس کلب ضلع چکوال نہیں بلکہ تحصیل پریس کلب کلر کہار سمیت سینکڑوں مساجد اور مدارس کے این او سی جو اسی قانون کے تحت رجسٹرڈ ہوتے ہیں۔ ایسے ہی پڑے ہیں۔ اور اے ڈی سی جی بلال صاحب تمام معاملات میں مکمل طور پر کنٹرول رکھتے ہیں۔ وہ راضی ہو جائیں۔ تو کام ہو گا ۔بصورت دیگر کوئی چانس نہیں۔ اور ڈپٹی کمشنر چکوال بھی مکل طور پر ان پہ ہی انحصار کرتی ہیں ، ڈپٹی کمشنر چکوال سے ایک ملاقات کا احوال یہ رہا ۔کہ محترمہ اڑھائی ماہ قبل عوامی پریس کلب ضلع چکوال کا این او سی پہنچا کئی بار آ چکے ہیں۔ اب مہربانی فرما دیں ، انہوں نے فرمایا ٹھیک ہے ۔میں فائل منگوا لیتی ہوں۔ پھر کہا بلکہ آپ ایسا کریں۔ عوامی پریس کلب ضلع چکوال کی فائل اے ڈی سی جی بلال صاحب کے پاس ہے۔ ان سے مل لیں ، بلال صاحب نے کہاں ملنا تھا۔ وہ تو ماضی کے قصوں میں کسی غار میں موجود خزانے پہ بیٹھے سانپ کی مانند فائلوں سے چمٹے ہوئے ہیں۔ دفتر میں گئے تو پتہ چلا میٹنگ روم میں ہیں۔ میٹنگ روم میں پہنچے تو علم ہوا۔ میڈم ڈی سی کے پاس بیٹھے ہیں ، میڈم کے دفتر کے باہر کھڑے ہو گئے کافی انتظار کے بعد بلال صاحب باہر نکلے ۔سلام عرض کیا۔ جواب ندارد ، بھاگ کر اے سی ہیڈ کوارٹر کی گاڑی میں بیٹھ گئے۔ اور ہم بس دیکھتے رہ گئے ، ہمارے ایم پی ایز اور ایم این ایز صاحبان بھی بے۔ بس ہیں وہ بھی فوٹو سیشن کا حصہ بن جاتے ہیں۔ مجبوری انہیں بھی لے ڈوبی ہے ۔ کیونکہ اب 2018 نہیں ہے۔ افسر شاہی چل رہی ہے، لیکن میں کہتا ہوں۔ قلم کے وارثوں کو کون روک سکتا ہے ۔قلم تو چلے گا کوئی روک سکتا ہے۔ تو روک کر دکھا دے۔
مجھے بار ہا یہ کہا گیا۔ کہ پریس کلب کا نام ہٹا دیں کوئی ڈیجیٹل میڈیا یا عوامی پریس کلب فورم کا نام استعمال کر لیں۔ جس سے میں نے مکمل انکار کر دیا ۔صحافت پریس کلب میں ہوتی ہے۔ کسی رجسٹرڈ شدہ ذاتی فرم میں نہیں۔
بڑی حیران کن بات تھی۔ تفصیلات چیک کرنے پہ علم ہوا ۔کہ بات سو فیصد درست ہے۔بات سمجھ آ گئی۔ کہ جو مدارس اور مساجد کی رجسٹریشن میں لیت و لعل سے کام لے رہے ہیں۔ ان سے کوئی توقع رکھنا خود کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔ فوٹو سیشن چلتا رہے۔ اور ڈپٹی کمشنر چکوال کی خیر ہو!
محترمہ ڈپٹی کمشنر چکوال کا فرمان ہے۔ کہ یہ کام میرے متعلقہ ہی نہیں ہے ۔سرا نہیں ہو گیا؟
کمال کی منطق ہے۔ آپ کے متعلقہ نہیں ہے ۔تو وزیر اعلیٰ پنجاب سے کی گئی کمپلین میں بھی لکھ دیا ہوتا ۔کہ لاہور والے خود کر لیں ۔یہ ہمارا کام نہیں ہے!
مقام شکر ہے ۔کہ عوامی پریس کلب ضلع چکوال کا نام اور لوگو وفاقی ادارے کی طرف سے تقریباً رجسٹرڈ ہو چکا ہے۔ باقی معاملات قدرت کاملہ کے سپرد کرتے ہیں ۔اور رسول پاک صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث کے مطابق اونٹ کا گھٹنا باندھنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔