*یوم آزادی*
*تحریر۔فرح سُنبل (پہاڑپور)*
خدا کرے میری عرض پاک پر اترے۔
وہ فصلِ گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
آزادی دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہے اللہ تعالی نے انسان کو آزاد پیدا کیا ہے ہر انسان کا بنیادی حق ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارے۔
ملٹن کے با قول!
"مجھے جنت کی غلامی سے دوزخ کی آزادی قبول ہے"
آزادی کا مطلب ہی یہی ہے کہ دوسروں کی مرضی کے تحت نہ ہونا۔ذاتی سطح پر آزادی عمل کرنے فیصلے کرنے اور اپنے لیے کھڑے ہونے کی صلاحیت ہے۔لہذا آزادی کا مطلب بھی سالمیت کردار کی مضبوطی ہے دانشور آزادی کے جو چاہے معنی بیان کریں میرے نزدیک آزادی کا مطلب اپنے خالق کے بتائے ہوئے حدود و قیود کا پاس و لحاظ کرتے ہوئے اللہ کے احکام کی مکمل پاس داری کرنا ہے۔پاکستان کو آزاد ہوئے چھہتر برس گزرنے کے باوجود وہ عہد جو پاکستان حاصل کرنے سے پہلے کیا گیا تھا اس پر تا حال وعدہ وفا نہ ہو سکا۔پاکستان دین اسلام کی اساس پر قائم کیا گیا لیکن بڑے کرب کے ساتھ یہ بات کہنی پڑ رہی ہے۔ہم نے دین اسلام کی اصل شکل کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔قائد اعظم کا ایک ایسی ریاست قائم کرنے کا مقصد تھا جہاں ارفع اخلاقی اقدار کا بول بالا ہو سب اپنا حق رائے دہی آزادی استعمال کر سکیں قائد اعظم نے صاف کہہ دیا تھا کہ پاکستانی ریاست میں مذہبی پیشوائیت کی کوئی گنجائش نہیں ہے یہاں مسلمان ہندو سکھ عیسائی سب برابر ہیں ریاست پاکستان سب کو مساوی حقوق فراہم کرے گی لیکن اس ریاست پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ مساوی سلوک رکھنے کی تو دور کی بات ہے اپنے مسلمان بھائیوں سے وہ ناروا سلوک رکھا جا رہا ہے جہاں پر ہر شہری کا سانس لینا بہت دشوار ہے ہم زمینی طور پر تو آزاد ہو گئے ہیں لیکن ہماری سوچیں ابھی تک گروی ہیں ہمارے آباؤ اجداد نے ازادی کے حصول کے لیے اپنی قیمتی جانوں کی قربانیاں دیں وہ سب رائیگاں گئیں ہم استماری قوتوں کے ایجنٹ بن کر اپنے ذاتی مفاد کو سامنے رکھ کر غریب بے بس اور بے کس عوام کے حقوق کا استحصال کر رہے ہیں زندہ اور آزاد قومیں اپنی تہذیب و ثقافت ارفع اقدار اور روایات رسم و رواج کی پاسدار ہوتی ہیں دکھ کا عالم تو یہ ہے کہ اس نام نہاد آزاد قوم کی اردو قومی زبان ہوتے ہوئے انگریزی افسر اور اردو دربان ہے نہ اپنی تہذیب ہے نہ اپنا لباس ہے غیر کی زبان اور تہذیب و تمدن کو اپنا کر جو فخر محسوس کرے وہ قوم کہلانے کی مستحق کیسے ہو سکتی ہے؟ کیا فائدہ ایسی نام نہاد آزادی حاصل کرنے کا جہاں اپنا کوئی بھی فیصلہ کرنے کی جرات نہ ہو نہ نظام تعلیم یکساں ہو نہ انصاف ہو اور نہ انسانیت باقی ہو میرے خیال میں پہلے خوددار، غیرت مند انسان بنیں پھر آزادی کا مطالبہ کر کے قوم بنیں ورنہ غلام ہی بہتر ہیں آزادی صرف گوشت کے کباب بیف کھانے اور عیش و عشرت سے محلوں میں رہنے اور جاگیریں بنانے کا نام نہیں بلکہ یکساں حقوق انصاف کے ساتھ قائم کرنے کا نام ہے آج وطن عزیز کو موجودہ حکمرانوں نے جس نہج پر پہنچا دیا ہے ہمیں جاگنا ہوگا یہاں کا ہر ادارہ عدل و انصاف پر قائم کرنا ہوگا دیگر صورت میں قائد کی روح سے چھپتے پھریے کیوں کہ ہم انہیں منھ دکھانے کے قابل ہی نہیں رہے اس ملک کا کیا ہے؟ یہ غریب آہیں اور سسکیاں لیتا رہے گا اور اس کے چہرے کو خون چکاں کرنے والوں کو بد دعائیں دیتا رہے گا۔
ابھی تک پاؤں سے چمٹی ہیں زنجیریں غلامی کی۔
دن آ جاتا ہے آزادی کا آزادی نہیں آتی ۔