لاہور۔۔کچھ لمحے ماضی کے دریچوں سے۔



 تحریر۔ ندیم سحر   (لاہور)    یہ  بہت عرصہ پہلے  کی بات ہے۔  کہ میری نصرت بھٹو صاحبہ سے ملاقات ہوئی۔ پیپلز سٹوڈنٹ فیڈریشن کا آجلاس تھا۔ ان دنوں میں فیصل آباد شہر میں سٹوڈنٹس فیڈریشن کا چیف آیڈوائزر تھا۔ جس کا آفتتاح اور صدارت نصرت بھٹو صاحبہ نے فرمائی۔ میں ان کی جرات سے بہت متاثر ہوا کہ انہوں نے ایک پریس فوٹوگرافر کے کہنے پر آپنی جگہ کو بدلنے سے انکار کر دیا۔ اور اس فوٹوگرافر کو کہا۔ کہ تم آپنی جگہ بدل لو۔

 اس کے بعد میں نے آپنی کتاب بلاول بھٹو کے بچپن میں  بلیو ویب سکول اسلام آباد کے پتہ پر بھیجی۔ جس کی رسید بے نظیر بھٹو صاحبہ نے ایک پورے مضمون کی شکل میں مجھے عطا کی، وہ مضمون میں نے کتاب کے اگلے انگلش ایڈیشن  محمد بیسٹ آف ہیومینٹی میں شائع کر دیا ۔ جسے بہت سے لوگوں نے بہت پسند کیا۔

 قائد محترم ذوالفقار علی بھٹو صاحب سے میری پانچ، چھ یا شاید اس سے بھی زیادہ ملاقاتیں ہوئیں ،جب وہ چناب کلب میں آپنے پارلیمنٹیرینز سے خطاب کے لیے تشریف لائے۔ تو محترم محمد حنیف رامے صاحب نے میرا تعارف کروانے کی کوشش کی، اس پر آنہوں نے کہا۔ اس کو تو میں خود جانتا ہوں۔ ایسے 10 آدمی مجھے دیں۔ تو پاکستان کو جنت بنا دوں گا۔

 تین مرتبہ میں نے ان کے آٹوگراف بھی لیے۔ جو ان ملاقاتوں کی سند ہیں۔ ایک آپنے وزیر معدنیات چوہدری  جہانگیر علی صاحب کو حکم دیا۔ کہ ندیم باری صاحب کو جو انجینیئر باہر کے ممالک میں بھیجنے ہیں۔ ان کے آنتخاب کی ذمہ داری  دے دیجئے،  کیونکہ  ندیم باری کسی سفارش سے متاثر نہیں ہوتے۔ میں نے ایسی گراں قدر پیشکش اس لیے نہ مانی۔ کہ میں پورے پاکستان کے بااثر ترین افراد کی ناراضگی مول نہیں لے سکتا تھا۔

 بھٹو صاحب میری دیانتداری سے بہت متاثر تھے ۔ میں نے ان کو فیصل آباد کے دورے سے پہلے ایک پمفلٹ شائع کر کے ہلا دیا۔ اس پمفلٹ کا عنوان تھا۔ بھٹو صاحب میں آپ کا آستقبال کرنے سے انکار کرتا ہوں۔ کیونکہ آپ کا بیٹا اور میرا بھائی حیات محمد شیر پاؤ صوبہ سرحد وزیراعلی شہید کر دیے گئے ہیں۔

 آنہوں نے آرڈر کیا کہ فوری ہیلی کاپٹر لے کر جاؤ۔ اور مجھے  ندیم باری کے گھر لے جاؤ ۔چونکہ میرے علاقے میں ہیلی پیڈ کی سہولت موجود نہ تھی ۔تو آنہوں نے آپنی خاص کار ذاتی طور پر مجھے لانے کے لیے میرے گھر بھیج دی، میں موجود نہ تھا۔ تو میرے والد صاحب اور پارٹی  سربراہ چوہدری آشرف صاحب کو گاڑی میں آپنے پاس بلوایا اور چائے پلوائی۔

 اور میرے والد صاحب سے درخواست کی۔ کہ آپنے بیٹے کو فرما دیں۔ کہ وہ بیرون ملک پوسٹنگ کے لیے ہمارے انجینیئرز کا انتخاب کرنے میں لازمی ہماری امداد کرے۔ اس کے علاوہ بین الصوبائی آمور کے لیے مجھے ایک بڑے عہدے کی پیشکش بھی کی۔ کہ یہ آدمی ہر دوسرے صوبے کے مختلف مواقع پر پہنچنے اور ان سے ملنے کا کام سرانجام دے گا۔ یعنی صوبوں کی کڑی بن جائے گا۔ لیکن میں آپنی ذاتی مصروفیات اور فیملی کی کفالت کی وجہ سے یہ ذمہ داری لے نہ سکا۔ جڑانوالہ کے حلقہ سے میجر معین باری کی درخواست پر میں نے آنتخابی جلسوں سے خطاب کیا۔ نتیجہ یہ نکلا ۔کہ ہم دونوں کی شعلہ نوائی کی بدولت،  معین باری صاحب کا کوٹ اور ٹوپی  میں نے بھی زیب تن کر لی،  ہم دونوں کی مشترکہ کاوشوں کی بدولت پورے پاکستان میں سب سے زیادہ ووٹ جڑا نوالا سے حاصل ہوئے۔ اور وہ اب تک ایک انمٹ ریکارڈ ہے۔ کہ پیپلز پارٹی نے آتنے زیادہ ووٹ حاصل کر  لیے۔

 یہ میرا عملی طور پر ایک باقاعدہ ریکارڈ ہے ۔کہ میں نے ایک مہینہ وہاں رہ کر پیپلز پارٹی کے لیے کوشش کی ۔ میجر معین باری   کو ایک ہزار اسلحہ لائسنس انعام میں دیے گئے۔ جس میں سے 5 سو لائسنس انہوں نے مجھے انعام کے طور پر عطا کیے ،یہ پیپلز پارٹی کی ایک بھرپور فتح تھی۔

Post a Comment

Previous Post Next Post