فیصل آباد (شہزادحسن) لیہ کے رثائی شعرا تجزیاتی مطالعہ
"پروفیسر ریاض حسین راہی"
صابر جاذب آپنے والد محترم شعیب جاذب کے علمی و ادبی سرمائے کے حقیقی وارث ہیں۔ تہذیب و شائستگی ، متانت ولیاقت ، شفقت و محبت ، وقار و تمکنت اور خوش مزاجی و خوشی طبعی ان کی شخصیت کے نمایاں اوصاف ہیں۔ کتب بینی اور علم دوستی ان کو ورثے میں ملی ہے۔ سینکڑوں تشنگان علم ان کے پاس آکر اپنی تشنگی بجھاتے رہتے ہیں۔ ان کا علمی انہماک اور ادبی شغف کسی علمی و ادبی تخلیق کا باعث بنتا رہتا ہے۔ زیر نظر کتاب "لیہ کے رثائی شعرا" اُن کا تخلیقی اور تنقیدی کارنامہ ہے۔ جو نہایت ژرف نگاہی اور تجسس و تحقیق کے بعدمعرض ظہور میں آیا ہے۔
صابر جاذب نے ضلع لیہ میں ۱۸۵۲ء سے ۲۰۰۱ ، قریباً پونے دو سو سال میں پیدا ہونے والے رثائی شعرا کی روایت کا تاریخی و تہذیبی پس منظر میں جائزہ لیا ہے۔ بلا شبہ حمد اور نعت کی طرح مرثیہ بھی کسی مخصوص ہیئت کی بجائے موضوع کے حوالے سے اپنی شناخت رکھتا ہے ۔ رسمی،شخصی اور قومی مرثیوں سے زیادہ مذہبی مرثیوں خصوصاً مظلوم کر بلا اورشہدائے کربلا کے مرثیوں کو رواج ملا۔
یہ بات قرین قیاس ہے ۔کہ دور حاضر کا ستم دیدہ اور الم رسیدہ فرد جو سیاسی خلفشار، سماجی ابتری اور معاشی بد حالی کے بوجھ تلے دبا ہوا اور تہذیبی و ثقافتی بحران کا شکار ہے ۔وہ نہ صرف مظلومین کرب و بلاعلیہم السلام کے آلام و مصائب میں اپنی محروم زندگی کی تباہی کی جھلک دیکھتا ہے۔ بلکہ عزم و حوصلہ اور حق و صداقت کی پاسداری کا حیات افروز پیغام بھی حاصل کرتا ہے۔ فاضل مصنف نے اس تناظر میں جدید مرشیہ کا تجزیہ کیا ہے۔ کہ اس میں غم حسین علیہ السلام کے ساتھ ساتھ فکر حسین کا پہلو زیادہ نمایاں ہے۔
صابر جاذب نے لیہ میں رثائی شاعری کی روایت میں بہت سے اُردو اور
سرائیکی رثائی شعرا کا ذکر کیا ہے۔ اس فہرست میں متقدمین اور مہاجرین شعرا شامل ہیں۔لیہ کی رثائی شاعری میں شامل تمام شعرا کی تاریخ پیدائش، جائے تولد اور مختصر شخصی تعارف کے بعد ان کے رثائی کلام کا مختصر تجزیہ کیا گیا ہے۔اس ضمن میں دستاویزی تحقیق کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔ عہد بہ عہد مرشیہ کا موضوعاتی تنوع اور اس کی اساسی فکر کو گرفت میں لینے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس میں اشعار کا عمدہ انتخاب، جذبات نگاری، منظر نگاری اور زبان و بیان کی خوبیوں کا اظہار ملتا ہے ۔ ان کا تنقیدی شعور ، موضوعات کی گہرائی اور گیرائی کے ساتھ ساتھ زبان و بیان کے محاسن کی ستائش سے عبارت ہے۔ ان کی مذکورہ تصنیف کو تاریخی اور تنقیدی دستاویز کی حیثیت حاصل ہے۔ مجھے امید ہے کہ علمی اور ادبی حلقوں میں
اسے یقیناً پذیرائی حاصل ہوگی ۔
ریاض راہی
۲۹ اپریل ۲۰۲۴