آج کے افسانچے
از:قلم۔ نورین خان پشاور
"معاشی بدحالی"
ارے بھائی کون ہے آپ؟ روز یہاں درخت کے نیچے قلم کاغذ لے کر بیٹھ جاتے ہو۔
جناب خاکسار کو سیلم کرمانی کہتے ہیں۔غریب خانہ پشاور صدر کے قریب ہے۔
اچھی بات ہے یعنی آپ ادیب ہے۔کیا آپکا ناول مکمل ہوا؟ سلیم کرمانی صاحب۔
نہیں ابھی نہیں دن بھر محنت مزدوری سے فرصت ملے تب نہ۔
اس نے آپنا ناول لکھنے میں برسوں گزارے، لیکن ناول کبھی ختم نہیں ہوا۔
زندگی کی گاڑی چلتی رہی۔ مگر اس کی معاشی بدحالی ویسے کے ویسی رہی۔
وہ آپنے نامکمل ناول کے ساتھ فوت ہو گئے۔
"ناتجربہ کار"
وہ ایک نوجوان مستقبل کے شاندار خواب دیکھنے والا انسان تھا۔
قدرت نے اسکے قلم کو روانی بخشی تھی۔
اس نے آپنے دل کے خیالات کو کاغذ پے اتارا۔ لیکن اسے مسترد کر دیا گیا۔
ملک کے نامور اور مشہور آدیبوں نے اسے ناتجربہ کار،ناپختہ اور نالائق لکھاری گردانا۔
اس نے پھر کبھی نہیں لکھا۔
"مشہوری"
جب تک اس کی کتابیں بکتی رہی ۔اسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔
اسے ہر ادبی تقریب پر مہمان خصوصی بلایا جاتا۔
اس کے پاس رائٹر بلاک تھا،
لوگوں کا ہجوم آس کے آگے پیچھے ہوتا تھا۔
مگر جیسے ہی یہ بیمار ہوا۔ اور لکھنا بند کر دیا۔
لوگوں نے اسے بھلا دیا،اس کے دوستوں نے بھی منہ موڑ لیا ۔کیونکہ اب وہ ایک بیکار پرزہ بن گیا تھا۔
اور اس کا کیریئر ختم ہو چکا تھا۔
وہ دنیا سے بھولا ہوا تھا۔
اور اسی بےسروسامانی میں دنیا سے چلا گیا۔
"خوشی"
سلیمان تم کہاں جارہے ہو؟
یہاں بہت رش ہے۔ میرے دوست۔
اس نے سوچا ۔کہ اسے اس کا ساتھی مل گیا ہے، لیکن یہ صرف جھوٹ تھا۔
وہ بغیر کسی نشان کے غائب ہو گیا، اسے ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ چھوڑ کر۔
آنسو بارش کی طرح گر رہے تھے۔
وہاں مت جاؤ سلیمان تمھارا دوست مل گیا پے۔
اس نے آپنے آنسو پونچھے اور روانہ ہوئے۔
آسے آپنا بچھڑا دوست مل گیا تھا۔ مگر کفن میں لپٹا ہوا ۔غزہ کے میدان میں۔
"بھوک"
چھوٹی لڑکی کی مسکراہٹ مدھم پڑ گئی۔ کیونکہ اسے آحساس ہوا۔ کہ وہ اکیلی ہے۔
اس کے دوست اسے صرف آنسوؤں کے ساتھ چھوڑ کر چلے گئے تھے۔
کیونکہ آج کسی کو کھانا نہیں مل رہا تھا۔
اس کا بچپن تو کھو گیا تھا۔
بچپن لمحہ فکریہ تھا۔
آچانک اس کے سارے دوست کھانے کے لئے ایک جگہ پھر سے جمع ہو گئے۔
اس کی آمید بندھ گئی ۔وہ بھی روانہ ہوئی کھانا آنے والا تھا۔
آچانک جہازوں سے بمباری ہوئی اور سارے بچے خاموش ہو گئے۔
"مکافات"
میں تم سے شادی نہیں کر سکتا سارا۔
میں تمھارے ساتھ دل لگی کر رہا تھا۔
جیسے ہی وہ چلا گیا،
اسے آحساس ہوا ۔کہ وہ اسے دوبارہ کبھی نہیں دیکھ پائے گی۔
ان کی بنائی ہوئی یادیں اسے ہمیشہ کے لیے ستاتی رہیں گی۔
اس کا دل ٹکڑے ٹکڑے ہو کر رہ گیا تھا۔
مگر آج وہ اسے سڑک پر نظر آگیا وہیل چئیر پر۔
"فانی"
یار جاوید ہم ہمیشہ ایک ساتھ رہے گے۔
وعدہ رہا علی جب تک زندہ ہوں ہم دونوں ایک ساتھ ہونگے۔
وقت کا پہیہ چلتا رہا۔ اور جاوید ملک سے باہر چلا گیا۔علی روز اسے خط لکھتا۔
ایک دن جاوید کو خط ملا۔
اس نے خط کو گھور کر دیکھا،
ہر لفظ کے ساتھ اس کا دل ڈوب رہا تھا۔
اس کا سب سے عزیز دوست اسے پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھ گیا تھا۔
فاصلہ سمندر جیسا محسوس ہوا۔
"زندگی"
میں نے یہ پودا بہت شوق سے لگایا تھا اماں۔
یہ تو اچھی بات ہے بیٹا۔
پھول مرجھا گیا، اس کی پنکھڑیاں آنسوؤں کی طرح گر رہی ہیں۔
اس نے اسے پیار سے پالا تھا لیکن بہت دیر ہو چکی تھی۔
اس کی آمید دم توڑ چکی تھی۔
مگر اس زمیں پر ایک اور نوخیز کلی کھل چکی تھی۔
سیاہی سے داغے ہوئے آنسو
اسلم کی کہانیاں آنسوؤں کی طرح بہہ رہی تھیں،
اس کی کہانی کا ہر جملہ بین کر رہا تھا۔
لیکن اس کی جدوجہد کبھی ختم نہیں ہوئی۔
اس نے آمید کے بارے میں لکھا،
لوگوں کو مایوسی اور غم سے نکلنے میں مدد دیتا رہا۔اس کی کہانیاں ہر جگہ مشہور ہوئی۔
لوگوں میں ہمت اور ولولہ طاری ہو جاتا۔
پھر بھی اس کی آپنی زندگی ایک مایوس کن کہانی تھی۔۔