"ہنر کے بغیر کہیں نہ جائیے،" "لمحہ فکریہ"
تحریر۔۔۔۔سحر ندیم (لاہور)
یو اے ای کے ویزے پر پاکستانیوں کے لیے مکمل قسم کی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ اور یو اے ای کے سفارت خانے نے مختلف قسم کے نقاط پیش کیے ہیں۔ جو کہ باعث شرمندگی بھی ہیں۔ اور حیران کن بھی۔
پہلی بات تو یہ کہ ہماری لیبر بالکل بھی اسکلڈ نہیں ہے۔ یعنی مکمل طور پر ہنر سے بے بہرہ، ہنر صرف دستاویز میں موجود ہے، پریکٹس بالکل بھی نہیں ہے، تعلیم کا ساتھ بھی نہیں ہے۔ اور کچھ کیسز میں دستاویز بھی مکمل نہیں ہیں۔ جیسے کہ کچھ نہ کچھ سفارش لگوا کر مالی، بڑھائی، ترکھان یا الیکٹریشن کا ویزہ لگوا لیا جائے۔
اس کے علاوہ ہماری لیبر کے لینگویج پرابلمز بہت زیادہ ہیں۔ زبان دانی پر کسی قسم کا عبور نہیں۔ اور انگریزی سے بالکل پیدل۔ اس کی برعکس اگر دیکھا جائے تو ہندوستانی لیبر انگریزی زبان سے خوب واقفیت رکھتی ہے۔
وہاں پر ہندوستانی لیبر تعداد میں ڈبل ہے۔ ہماری لیبر یو اے ای کے جیلوں میں ڈبل تعداد میں موجود ہے۔
ڈرگز کے معاملے میں پاکستانی لیبر خاصی بدنام ہو چکی ہے۔ اور پاکستان سے وہاں ڈرگ سپلائی کرنے کے کام خوب آتی ہے۔
ذاتییات پر دخل اندازی کی خوب عادت ہے۔ اور جھگڑالو طبیعت ہے۔ نو مئی کے واقعات کو وہاں بھی آپنے آپنے انداز میں دہرانے کے لیے خوب مظاہرے کیے گئے۔ اور آنہوں نے بہت مشکل سے اس آفرا تفری کو کنٹرول کیا۔
اس کے علاوہ سوشل میڈیا کا شعور نیا نیا ہے۔ بات کرنے کا کوئی تجربہ نہیں۔
جیسا کہ وہاں پر بارش اور کچھ موسمی مشکلات پیش آئیں۔ تو پاکستانیوں کی طرف سے عجیب و غریب باتیں کی گئی۔ جیسا کہ ان کے گناہوں میں ملوث ہونے کی وجہ سے یا مندر کو وہاں تعمیر کرنے کی وجہ سے ایسا عتاب آیا ہے۔ کہ کسی بھی قوم کے خالص دینی معاملات اور گفتگو سے عام طور پر گریز کرنا چاہیے۔
مندر کا وہاں بنایا جانا ایک دینی معاملہ بھی ہو سکتا ہے۔ اور کسی حد تک تجارتی معاملہ بھی۔
آسرائیل اور ہندوستان سے متعلق ان کی پالیسیز پر بھی پاکستانی خوب دل کھول کر گفتگو کرتے ہیں۔
یو اے ای ہو یا کوئی بھی اور ملک ،کسی ملک کے اندرونی معاملات، ان کے دوسرے ممالک سے تعلقات یا ان کی پالیسیز پر کوئی بھی بلا تحقیق گفتگو کرنے کا ہمیں کوئی حق نہیں ہے۔ اگر ہمیں انہی کے ملک میں رہائش پذیر ہونا ہو تو زبان بندی ضروری ہے۔
صفائی ستھرائی کے معاملات بھی پاکستانی لیبر کے بہتر نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ آعلی آحکام کا کہنا ہے۔ کہ پاکستانی لیبر عبادات کی مد میں لمبی لمبی بریک کا فائدہ اٹھاتی ہے۔ اور عبادت کا بہانہ بنا کر کام سے کئی کئی گھنٹےغیر حاضر رہتی ہے۔ ہندوستانی اور نیپالی لیبر سے آنہیں کام کے معاملے میں کوئی پرابلم پیش نہیں آتی۔
پاکستان سے بہت بڑی تعداد میں بھکاری وہاں پہنچتے ہیں۔ وہاں سے واپس بھیجے جاتے ہیں۔ اور پھر دوبارہ اور سہ بارہ ویزے لگوا کر وہیں پہنچتے ہیں۔
کیسی عجیب بات ہے۔ کہ ریاست لیول پر بھی ہم ہی بھکاری ہیں۔ اور بین الاقوامی طور پر بھی بھکاری ہم میں سے ہی جاتے ہیں۔
طوائف پیشہ عورتیں اور جسم فروش خواتین بھی پاکستان سے بہت زیادہ تعداد میں وہاں پہنچتی ہیں۔ جو کہ ملک کے لیے قابل شرمندگی ہے۔
وزیراعظم لیول تک سب کو ان باتوں کا پتہ ہے ۔کہ پاکستان یو اے ای کے ہر طرح کے ترجیحی معاملات، سیاست، سفارت، سیاحت، تجارت میں بتدریج نیچے آتا جا رہا ہے۔ لیکن حکومت ان معاملات پر مکمل طور پر خاموش ہے۔
آعلی سرکاری آفسران سےمیری دست بستہ درخواست ہے۔ کہ صوبائی لیول پر کمیشن تشکیل دیجئے۔ ذیلی کمیٹیاں بنائیں۔ جو لوگ وہاں جانے کے خواہش مند ہیں۔ ان کو ہنر سے متعلقہ کورسز کروائیں جائیں۔ ہر قسم کے کام کا میرٹ بنائیں۔ اور اس کی پابندی بھی کروائیں۔ ان کے ہنر کا لیول چیک کیجئے، ان کے دستاویز چیک کیجئے ، آخلاقی طور پر ان کی تربیت کیجئے، ان کو ڈپلومیٹک آپروچ سکھائیے۔اور پھر بیرون ممالک جانے کی آجازت دیجئے۔
بھکاری اور طوائف پیشہ خواتین کے معاملات کو ایف آئی اے کے جائزے میں شامل کیجیے۔ تاکہ ان دو پیشوں کی سرکوبی کی جا سکے۔
اس سے پہلے کہ تمام ممالک کےسفارت خانے پاکستانیوں پر مکمل پابندی عائد کر دیں، خود ہی وقتی طور پرآپنی پبلک پر مکمل پابندی عائد کیجئے۔ اور ویزے دینا بند کیجئے۔
پہلے ہم سوچتے تھے۔ کہ آمریکہ پاکستانیوں کو ویزے نہیں دے رہا۔ آج ایسا وقت آیا ہے ۔کہ یو اے ای سے وزٹ ویزہ بھی بند کر دیا گیا ہے۔
ہم ایسی جمہوریت کے علمبردار ہیں۔ کہ اب ہم نہ تیتر ہیں نہ بٹیر ہیں۔ پالیسی مکمل طور پر متاثر ہو رہی ہیں۔
ہنر ،تعلیم ،پریکٹس اور پیشےکے بغیر دنیا میں کہیں نہ جائیے۔ مہربانی کر کے آپنے ہی ملک میں رہنے کو ترجیح دیں۔