یکم مئی "یوم مزدور"یا یوم مجبور ڈۓ"


 یکم مئی "یومِ مزدور "یا "یوم مجبور ڈے" 

  تحریر۔۔۔۔

سید مخدوم حسین نقوی۔۔۔ 

فرمان باری تعالیٰ 

    الکاسب حبیب اللہ 

ترجمہ۔۔ کام (مزدوری) کرنے والا اللہ کا دوست ہے۔

یہاں یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ھے۔ کہ کام وہ جو حق حلال کا ھو یہ نہیں۔ کہ کسب کا مطلب یہ ہے۔ کہ  کوئی دن بھر بازاروں، دفاتروں،میں ہیرا پھیری کے چکر میں مارا ماری کرنے کو بھی تو کسب (کام) ہی کہا جاتا ھے۔ نہیں ہر گز نہیں۔ قرآن مجید کی اس آیت مبارکہ میں جس طرف توجہ دلوائی گئی ھے۔ وہ یہ ھے۔ کہ کسان جب تپتی دھوپ میں آپنی فصلوں میں ہل چلانے سے لیکر پانی، بیج پھر کھاد کے بعد فصل کی کٹائی تک محنت کرتا ھے۔ وہی تو کسب ھے۔ پر شاید اب اسے بھی کسب کہنا کچھ غلط ہی ھو۔ کیونکہ اس کی محنت میں بھی اب زمانے کی تیزی کے ساتھ ساتھ اس کسان نے بھی بیل کے ساتھ ھل چلانا اور کنوؤں سے پانی نکالنا،آپنی جھولی میں بیج اور کھاد لے کر دانہ دانہ کھیتوں میں پھینکنا اور پھر آپنے ہاتھوں سے کٹائی کرنا چھوڑ دیا ھے۔ اب تو اس نے بھی ہل کی بجائے ٹریکٹر بیل کے زریعے کنوؤں سے پانی نکالنے کی بجائے ٹیوولز لگا لیے ہیں ۔اور بیچ بونے یا کھاد سپرے کرنے کے لیے مشینوں کا آستعمال شروع کردیا ھے۔ خیر اب یہ وقت کی اہم ضرورت بھی ھے۔ ہاں تو بات ھو رہی ھے۔ مزدور کی میرے خیال میں مزدور تو وہ ھے ۔جو دن بھر آپنے سر پر تیگاری اٹھا کر بڑی بڑی عمارتیں بنوانے کا کام کر رہا ھے ۔مزدور وہ ھے۔ جو دھوپ میں جلتی آگ کے آوپر کچی مٹی سے بنی آینٹوں کو پختہ و سرخ کرنے کے لیے آگ میں کوئلہ و لکڑی وغیرہ جھونک رہا ھے۔ یا پھر اسے مزدور کہا جاسکتا ھے۔ جو صبح سے لیکر شام تک رزق حلال کے حصول کے لیے آپنے سر پر، ٹھیلہ پے یا سائیکل سوار سبزی و فروٹ، تیل، مرچ ، نمک غرض کے ضروریات زندگی کی اشیاء گلی گلی کوچہ کوچہ آوازیں لگا کر فروخت کر رہا ھے۔ جسے خبر ہی نہیں۔ کہ آج تو "یکم مئی یومِ مزدور ھے یا مجبور،،اسے تو بس اللہ کی عبادت کے بعد یہی خبر ھے۔ کہ اس کے بچوں نے اسکے گھر والوں نے آج کھانا پیٹ بھر کے کھایا یا گزرا ہی کیا۔ اس کے ہاں بیماری  کے لیے  دوا بھی میسر ھے۔ کہ نہیں اسکے بچوں کی کاپیاں، پنسلز و دیگر مدرسہ کی چیزیں مکمل ھوئی یا نہیں۔ بچوں کی یونیفارم کتنی پرانی ھو چکی ہے۔ اور اس پرانی یونیفارم کی دھلائی کے لیے صابن صرف کیسے لانا ھے۔ پاکستان میں رہتے ھوۓ اس مہنگائی کے دور میں گیس اور بجلی کا بل کیسے ادا کرنا ھے۔ اس مزدور کو تو یہ ڈر کھاۓ جارہا ھوتا ھے۔ کہ نا جانے کب گیس و بجلی کے بلز کی عدم ادائیگی پر اس کی محنت و خون پسینہ کی کمائی ذاتی دولت سے لگائے گئے میٹرز اتار لیئے جائیں گے۔ کب اس کی زندگی اندھیروں میں گم کردی جاۓ۔۔؟

یہ وہ خدشات ھیں۔ جو ایک مزدور کو اندرونی خوشیوں سے مرحوم کئے ھوۓ ہیں۔ اور شاید خدا کی عبادت سے بھی کبھی کبھار غافل کر دیتے ھوں۔ اور اس کے ذمہ دار یقیناً وہ صاحب استطاعت ہیں۔ جو ان کے گردونواح رہائش پذیر ہیں۔ 

آج یکم مئی کے دن میں نے سوشل میڈیا پر صبح سے اب تک بیسوں پوسٹس یوم مزدور کے حوالے سے لگی دیکھیں۔ جو سلسلہ ابھی تک جاری ھے۔ اور یقیناً مفت کی شہرت کے لیے شام تک یہ تسلسل برقرار رہے خیر ۔۔۔۔۔۔یہ اگر عمل کسی کے نزدیک اآچھا نہیں تو برا بھی نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ جس کے پاس موبائل نیٹ کی سہولت موجود ھے۔ اسے آپنے دوستوں کو آپنے چہرہ انور کا دیدار کروانے یا لفظوں میں آپنے وطن کے مزدور لوگوں سے محبت کا آظہار کرنا ضروری ھے۔ کاش اس کے ساتھ ساتھ ہم میں سے کسی نے ایسا بھی کیا ھو۔ کہ آج ایک مزدور کو آپنے گھر لے جاکر اس سے زیادہ نہیں تھوڑا بہت۔۔۔۔بہت ہی تھوڑا کام لیکر اسے کھانا کھلاۓ۔ ساتھ اسکے گھر لے جانے کے لیے کھانا پیک کرواۓ اسے فوراً پورے دن کی آجرت قیمت دیکر یکم مئی یومِ مزدور کا اس سے آظہار کیا جائے ۔اس اثناء میں اگر اس کی خوداری کو اسکا ضمیر للکارے تو فوراً اس سے کہے۔ کہ آج یومِ مزدور ھے۔ اور میرے گھر میں 10 سے 15 منٹ آپ کو لانے کا میرا مقصد اس دن کے حوالے سے آپکے ساتھ سلیبریٹ کرنا ھے۔

 آج کے اس دن کے حوالے سے میری بھی ملکی بڑے شہروں جیسا کہ لاھور، ملتان،فیصل آباد،گجرانوالہ،سیالکوٹ،روالپنڈی اسلام آباد،کراچی،حیدرآباد،کوئٹہ،پشاور وغیرہ کیونکہ یہاں مزدوروں کو یقیناً اجرت بہتر ملتی ھے ۔انکے علاوہ دیگر چھوٹے شہروں کے کاروباری معزز حضرات سے چند گزارشات ھیں۔۔ 

جن حضرات کی مارکیٹس میں دوکانیں ہیں۔  وہ کسی قسم کی بھی ھوں۔ آپ آپنے کام کرنے والے لڑکوں کو ماہانہ کم بیش21000 سے 30000 تک تخواہ دیں۔ اگر کسی ھوٹل کے مالک ہیں۔ تو اسطرح 700 سے 1000 تک ڈیلی آجرت پیار و محبت اور شفقت و ہمدردی کے تحت ادا کریں۔ تاکہ یہ مجبور لوگ آپنی ضروریات زندگی کے معاملات چوری، ہیرا پھیری، جھوٹ، فراڈ سے بچ کر صیح طریقے سے پوری کرسکیں۔ گورنمنٹ انکے لئے کچھ کرے یا نا کرے بروز قیامت ملکی سربراہان اللہ کی عدالت میں عوام پر آپنا رویہ روا رکھنے کے خود جواب دہ ھوں گے۔ مگر ھم آپنے ساتھ رہنے والے آپنے قریب رہنے والے اپنے پاس رہنے والے مزدوروں کے اتراؤ چڑھاؤ کے کسی حد تک ذمہ دار ہیں۔ اور اس کا جواب بھی اللہ کے حضور ہمیں ہی دینا ھے۔ ناکہ کسی اور کو۔۔۔

Post a Comment

Previous Post Next Post