سال 2030 ، پاکستانی سیاست میں پرفارمنس شرط ہے
تحریر۔۔۔ سحر ندیم
2030 کے بارے میں نے باقاعدہ لکھنے کا آغاز کر دیا ہے۔ عوام الناس کو آنے والے وقت کی مشکلات سے آگاہ کرنا میرا فرض بھی ہے، نصب العین بھی اور ایک عبادت بھی۔ تاکہ لوگ آپنے طور پر آنے والے وقت کی تیاری کر سکیں۔
جب ہم پاکستان کا سیاسی منظر نامہ دیکھتے ہیں ۔تو اس کو عمر اور تجربے کے حساب سے تین گروہوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔
جیسا کہ پہلا گروہ تجربے اور عمر کے اعتبار سے شہباز شریف، نواز شریف، آصف علی زرداری، عمران خان, چوہدری شجاعت ، جناب پرویز الہی صاحب اور مولانا فضل الرحمن پر مشتمل ہے۔ یہ گروہ 65 سے 75 کے درمیان میں گنا جا سکتا ہے۔
اس گروپ کی خاصیت یہ ہے ۔کہ از سر نو کام کرنے کی عمر گزر چکی ہے۔ کام کرنے کا انداز آؤٹ ڈیٹڈ ہو چکا ہے۔ قابلیت اور تجربہ کیسا بھی ہو 70 سال کی عمر میں یا 75 سال کی عمر میں کوئی انسان دوبارہ آپنے معاملات کو ترتیب نہیں دے سکتا۔ بلکہ اس عمر میں انسان آپنے آپ کو بہت زیادہ بدل بھی نہیں سکتا۔ بے شک تجربہ بہت ہے ۔مگر انداز وہی پرانا۔
ان لوگوں کی سیاست قومی مفاد پر مبنی نہیں ہے۔ سیاست کاانداز روایتی اور قدیم دور کا ہے۔ جبری سیاست کا عنصر بھی موجود ہے۔مزید یہ کہ جنریشن گیپ بھی بہت واضح طور پر دکھائی دیتا ہے۔
آئیے دیکھتے ہیں۔ کہ دوسرا گروہ کیسا ہے۔ یہ گروپ عمر کے اعتبار سے 45 سے 60 سال تک کی عمر کے لوگوں کا ہے۔ جو کہ موجودہ وقت کے اعتبار سے ایک خاص، مکمل اور بہتر تجربہ حاصل کر چکے ہیں۔ اور ابھی ایسی توانائی موجود ہے ۔کہ آپنے آپ کو بھرپور طریقے سے مزید محنت میں ڈھال سکتے ہیں۔ اس گروہ کے حضرات میں آنے والے وقت کی ضروریات سے نپٹنے کی ہمت بھی موجود ہے۔
آزاد امیدواران میں سے مفتاح اسماعیل اور شاہد خاقان عباسی صاحب۔
ایم کیو ایم کے حضرات میں سے فاروق ستار اور مصطفی کمال صاحب۔
نون لیگ سے سعد رفیق صاحب، احسن اقبال ، خرم دستگیر، ہمارے موجودہ وزیر خزانہ اورنگزیب رمدے صاحب بھی بہترین پرفارمنس کے حامل ہیں۔
تحریک انصاف سے ثانیہ نشتر صاحبہ، محترمہ زیباناز صاحبہ، لطیف کھوسہ اور حماد اظہر آپنے کام اور تجربے، محنت اور لگن کے لحاظ سے قابل ذکر ہیں ۔
اس کے علاوہ پیپلز پارٹی سے جناب مراد علی شاہ صاحب، فیصل کریم کنڈی، فیصل میر، حافظ غلام محی الدین، جناب عامر نصیر بٹ، کے کے عرف خلیل الرحمن صاحب، محترمہ پروین شیخ صاحبہ، محترمہ نرگس صاحبہ، سعدیہ سہیل صاحبہ، سلیم بھٹی صاحب , خان اقبال خان صاحب آپنے کام میں ماہر اور پرفارمنس کے اعتبار سے بہترین ہیں۔
جماعت اسلامی میں حافظ نعیم الرحمن صاحب کا آنا ہمارے لیے باعث فخر بھی ہے۔ اور روشنی کی کرن بھی۔ ہم سب کو ان سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں۔
یہ نہایت تجربہ کار لوگوں پر مشتمل گروہ ہمارا وہ اثاثہ ہے ۔جس میں بے حد پڑھے لکھے لوگ موجود ہیں۔ یہ تمام لوگ آپنے آپنے فن میں ماہر ہیں۔ اور ان میں سے ہر ایک فرد تقریبا گزشتہ 30 سے 35 سالوں سے قوم سے وابستہ بھی ہے، پبلک کا سامنا بھی کر رہا ہے، ملک کے حالات کو جانتا بھی ہے۔ اور آپنے کام کو سمجھتا بھی ہے۔
ان میں سے بہت سے لوگ آپنی پرفارمنس کا بہترین مظاہرہ کر چکے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے۔ کہ اس تجربے کار کئی جماعتوں پر مشتمل سیاسی گروہ کو باقاعدہ استعمال میں لایا جائے۔ اور ان کو الگ الگ اسائنمنٹس دی جائیں۔ تاکہ ملک و قوم کو ان کی قابلیت کا بھرپورفائدہ مل سکے۔ یہ گروپ ماضی کا حصہ بھی رہا ہے۔ اور آج کل کے دور کے جدید تقاضوں سے بھی خوب واقف ہے۔ نیز اس گروپ کا تجربہ بھی خوب ہے۔ اور اس گروہ کی علمی لیاقت بھی آپنے عروج پر ہے۔ اب ان سے بہتر خطوط پر کام لینا اور فائدہ اٹھانا گورنمنٹ کا کام ہے۔
اگلا سیاسی گروہ 30 سے 35 سال کی عمر کے لوگوں پر مشتمل ہے۔ جو کہ نوجوان گروپ ہے۔ بلاول بھٹو ،حمزہ شہباز، عدیل محی الدین، مولانا اسد محمود ، مریم نواز صاحبہ، آصفہ بھٹو صاحبہ۔
یہ تمام نوجوان آج کل کے جدید تقاضوں سے واقف ہیں۔ اور ہمیں بہت امید ہے کہ یہ روایتی سیاست سے ہٹ کر ملک و قوم کی ترقی کے لیے فائدہ دیں گے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ گروہ بغیر مقابلہ ڈائریکٹ میدان میں پہنچ چکا ہے۔ آج کل کے مسائل کو تو خوب جانتا ہے لیکن ورک شاپ کے بغیر میدان میں لایا گیا ہے۔
ہمارے ملک کا المیہ یہ ہے کہ نوجوانوں کی ٹریننگ ابتدائی عمر سے سیاست کے لیے نہیں کی جاتی۔ بلدیاتی سطح پر کام نہیں کیا جاتا۔ گورنمنٹ کو چاہیے اور سیاست دانوں کو بھی چاہیے کہ ابتدائی عمر سے نوجوانوں کی سیاست کے لیے ٹریننگ کا آغاز کریں۔ تاکہ جو لوگ آئندہ ملکی سیاست میں شامل ہوں وہ بلدیاتی سطح پر خوب پریکٹس کر کے سیاست میں آئیں۔ نہ کہ سیاست میں شامل ہو کر بڑی سیٹوں پر آنے کے بعد عوام پر پریکٹس حاصل کی جائے۔ اس میں ہم سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہے یعنی کہ موجودہ گورنمنٹ، عوام اور سیاسی رہنما سب مل کر ملکی سیاست کو بہتر بنانے کے لیے نوجوانوں کو باقاعدہ ٹریننگ کے لیے ابھارا جائے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ آئندہ ملکی سیاست میں نوجوانوں کے لیول پر بہتری لائی جائے گی۔ اور روایتی سیاست کا جڑ سے خاتمہ کیا جائے گا۔
مزید یہ کہ روایتی سیاست کے یہ آخری سال ہیں۔ آئندہ نئے آنے والے دور میں لیڈر وہی آگے جائیں گے جو جدید دور کے تقاضوں سے وابستہ ہوں گے۔ محنت جن کا خاصہ ہوگا۔ قومی مفاد جن کو اپنی جان سے بھی بڑھ کر عزیز ہوگا۔ کیونکہ ہمارے ملک کی پبلک کو ہلکی قابلیت کے لوگ مزید نہیں چاہیے۔ آنے والا وقت ہر قسم کے مقابلے کے لیےبہت سخت ہے اس لیے لیڈر کی قابلیت بھی اسی اعتبار سے بہترین ہوگی، تو پبلک اس کو اپنے اندر جذب کرے گی۔ 2030 میں پرفارمنس شرط ہے۔