صحافی نوشین رانا قتل صحافی برادری خاموش۔۔۔
تحریر ۔۔۔۔
سید مخدوم حسین نقوی۔۔
زندگی کی کوئی خبر پوری دنیا میں ماسوائے اللہ کے برگزیدہ بندوں کے کسی فرد واحد کو بھی نہیں کہ کب کس وقت سانسوں کی ڈور ٹوٹ جائے اور بندہ اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے مگر انسان وہی ہے جس میں انسانیت ھو ہمیشہ اچھے کردار اور گفتار کے مالک انتقال کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں خاص کر وہ لوگ جو حق پر ڈٹ جاتے ہیں ظلم بربریت کے خلاف ثابت قدم کھڑے رہتے ہیں یہاں پر سرکار مظلوم کربلا نواسہ رسول ﷺ آلہ امام حسین علیہ سلام کا فرمان اقدس تحریر کرنا موقع کی مناسبت سے ضروری سمجھتا ھوں کہ
حق بات کہنے سے مت ڈرو کیوں کہ نا تو کوئی تمہیں موت دے سکتا ھے اور نا ہی کوئی تم سے تمہارا رزق ہی چھین سکتا ھے
یہاں پر قارئین کی توجہ اس جانب دلوانا مقصود ھے کہ آج پورے چار دن گزر گئے صحافی نوشین رانا کی قتل کی خبر شوشل میڈیا ،پرنٹ میڈیا الیکٹرونک میڈیا کے زریعے وائرل ھوۓ مگر افسوس اس بات کا ھے کہ جس شہر کے گاؤں 33 ایس پی پاکپتن شریف سے مقتولہ صحافی نوشین رانا کا تعلق ھے اس شہر پاکپتن سے نا تو کوئی صحافیوں کی طرف سے احتجاج دیکھنے کو ملا اور ہی چند اکا دکا صحافیوں کے علاوہ کسی نے نوشین رانا کی خبریں اپنے چینلز پر چلاوائیں نا ہی پرنٹ میڈیا پر انکے پراسرار قتل کی خبر۔۔۔
میں یقین سے کہہ سکتا ھوں کہ پاکپتن کے سبھی صحافیوں تک اب تک تو پہنچ ہی چکی ھو گی مگر کسی صحافی کی طرف کو خبروں میں اب تک ہلچل نا مچ سکی یوں تو سبھی صحافی ہی ایک عام قتل ھونے والے شخص کی خبریں اپنے متعلقہ اداروں کو کثرت سے روٹین مطابق بھیجتے رہتے ہیں اگر کوئی ناخوشگوار واقعات عمل میں أئیں تو بڑا بڑھ چڑھ کر نیوز چلوانے میں مصروف عمل دیکھائی دیں گے مگر افسوس صد افسوس "نوشین رانا کے قتل پر صحافی برادری خاموش،، ھے جو بڑے دکھ اور رنج کی بات ھے نوشین رانا تو اب اس دنیا میں واپس لوٹ کر کبھی نہیں آنے والی مگر اس کے قتل کے حوالے سے کم از کم ان صحافی حضرات کو تو کوئی عملی قدم اٹھانا چاہیے جن سے ان کا تعلق رہا آپ محترم صحافیوں میں سے اگر کوئی انہیں صحافی نہیں بھی سجھتا تھا تو پھر بھی آپ خود ایک صحافی ھونے کے ناطے جیسے عام روٹین میں اپنے اپنے اداروں کو معاشرتی حالات کی خبریں بھیج کر پوری دنیا میں نشر کروانے کو اپنا فریضہ سمجھتے ہیں تو نوشین رانا مقتولہ کے قتل کی خبریں پھر نشر کرنا چاہیے اس حوالے سے بڑی ہی معذرت کے ساتھ میں اپنے عزت مآب قلم بھائیوں سے چند سوالات کرتا ھوں کہ صحافت کیا ھے۔۔؟
کیا صحافت کی آڑ میں ان کوائفائید ڈاکٹر کا سرعام کلینک کھول کر بیٹھنا ھے۔۔؟ کیا اپنے ناجائز کاروباری معاملات میں خبروں کے اداروں سے جڑنا غرض ھے۔۔؟ کیا صحافت میں صرف مطلب پرستی جائز رکھنا ہی مقصود ھے۔۔؟ کیا ظلم و زیادتی کرنے والوں سے چند ہزار روپیے لیکر انک اپنے قلم کے زریعے تحفظ دینا ھے۔؟ سیاسی ڈیروں پے بڑے بڑے سیاست دانوں کی بے جا آؤ بھگت کرنا یا بیوکریٹس و دیگر انتظامیہ کی اپنے اخبارات و چینلز کے زریعے چاپلوسیاں ہی کرنا لازم ھے۔۔؟ کیا سچ اور حق کی بات کو چھپانا صحافت ھے۔۔؟ یا رزق کے لیے صبح سے لیکر رات دیر تک ادھر ادھر بھاگنا حالانکہ اس کام کا تو الله نے وعدہ بھی کیا ھے کہ رزق تمہیں ہر حال میں تمہارا پہنچ ہی جانا ھے
بندہ تو اپنے 33 سالہ ٹوٹے فوٹے دور صحافت میں ابھی تک طفل مکتب ہی ھوں اور بس سیکھ ہی رہا ھے اسی لیے تو اپنے عزتوں والے صحافی بھائی سے عرض گزار ھوں کہ اس طالب علم کی راہنمائی فرمائی جاۓ اور مطلب صحافت سے مجھے آگاہی بخشیں
کیا صحافی اپنے کسی مظلوم صحافی سفر میں ساتھ چلنے والوں کے لیے آواز نا اٹھائیں۔؟؟
اگر حق کے لیے آواز اٹھانا آپ لوگ سمجھتے ہیں کہ بلکل درست ھے تو پھر آئیں مقتولہ صحافی نوشین رانا کی آواز بنیں اور نوشین رانا کے سفاک قاتلوں تک رسائی کے لیے اپنے اپنے طریقہ سے پنجاب پولیس بالخصوص سوہاوہ پولیس اور پاکپتن پولیس کا ساتھ دیں یا احتجاج نا کریں مگر مذمت کی چند پوسٹس ہی شوشل میڈیا پر سہی ایسا بھی نہیں کرتے تو پر صحافت سے کنارہ کشی کرلیں کیونکہ جو قومیں خود پے ڈھاۓ جانے والے ظلم و بربریت ہی کیلئے آواز نہیں اٹھاتیں انکی زندگیاں بس صرف سانسوں کے چلنے تک ہی محدود رہتی ھے اور وہ زندہ صرف نام کے ہی ھوتے ہیں
صحافی نوشین رانا کا قتل اور صحافی برادری خاموش تماشائی۔
byNaya din news
-
0