والد محترم کوہم سے بچھڑے ہوئے پورے تین سال گزر گئے
تحریر''' ایڈوکیٹ رابعہ ریاض
میں نے دیکھا ہے ایک فرشتہ باپ کے روپ میں۔
کبھی کبھی والدکی جدائی کے غم کے بارے میں کسی دوست یا رشتہ دار سے بات کرنے اور رونے سے بھی دل ہلکا ہوجاتا ہے۔ مگردوسروں کے لئے یہ سمجھنامشکل ہوتاہے۔کہ یہ انسان باربارایک ہی بات کیوں دھراتاہے۔ مگریہ میرے غم کے کم ہونے اوراس پرقابوپانے کاایک ذریعہ ہوتاہے۔ تاکہ دل کا بوجھ ہلکاہوسکے۔ میرے دل کے ہرخانوں میں ہر وقت والدمحترم کا ہنستا مسکراتا چہرہ سمایا رہتا ہے۔ ایسے لگتا ہے۔ جیسے زندگی کا سارا حُسن ان دلکش لوگوں کی وجہ سے تھا۔میرے والدمخترم ایسے ملنسار،محبت کرنے والے شفیق باپ تھے جن کی بیٹی ہونے پر مجھے ہمیشہ فخر رہےگا ۔ خیالات اورالفاظ جتنے بھی حسین بامعنی اور آحترام سے بھرے ہوئے ہو۔ والد محترم کی جدائی کا غم قلم کی گرفت میں نہیں آسکتا ۔ اگرحقیقت کی نگاہ سے دیکھا جائے تو زندگی چیزوں اور سہولتوں کا نام نہیں بلکہ زندگی احساسات اور جذبات کا نام ہے، اگرچہ زندگی بہت کچھ پا کر کھونے کا نام ہے مگر کبھی کبھی جذبات والد کی جدائی پر آنکھوں کو پانی پانی کر دیتے ہیں۔
یتیمی ساتھ لاتی ہے زمانے بھر کے دْکھ
"سنا ہے باپ زندہ ہوتو کانٹے بھی نہیں چبھتے"
قبلہ گاہ، ابو جی، باپ، والد اور جس نام سے بھی یاد کیا جائے تو ایک ایسی شخصیت کا روپ سامنے آتا ہے جوآپنی اولاد کے لیے شفقت، پیار اور تحفّظ کی سب سے بڑی علامت ہے۔ والد وہ واحد ہستی ہے۔ جو آپنے بچوں کو تر قی کرتے ہوئے دیکھنے کا خواہش مند ہوتاہے۔بچے کی پیدائش کے بعدمعاشرے میں اعلیٰ مقام دلانے کیلئے باپ آپنی ہستی کو مٹی میں ملانے سے بھی دریغ نہیں کرتا ۔ اولادکی ترقی خوشحالی کی وجہ سے معاشرے میں سر اٹھا کر چلنے کیلئے وہ ساری زندگی سر جھکا کر محنت کرتا ہے۔باپ اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم ترین نعمت ہے۔خوش نصیب اور خوش قسمت ہیں۔ وہ لوگ جنہیں یہ عظیم نعمت میسر ہے۔
آف خدایا۔۔۔۔آج سے تین سال قبل 28اپریل 2021 جب میں اِس عظیم ترین نعمت سے محروم ہو گئی۔ جب مجھ بدنصیب کے سر پر آسمان ٹوٹ پڑا، پاؤں تلے زمین نکل گئی، یہ وہ سیاہ دن تھا ۔میرے لئے جب میرے والد محترم اس فانی دنیا سے رخصت فرما کر مالک حقیقی سے جا ملے۔ زندگی جہاں بہاریں ہی بہاریں تھیں، وہاں اک ایسی خزاں نے ڈیرہ ڈالا ۔کہ خوشیاں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے روٹھ گئیں، یوں میرے خوشیوں اور مسرتوں پر ایک پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ اس وقت والد محترم کی وفات میرے لئے ایک چیلنج بن کر سامنے آگئی۔زندگی میں وہ دن کبھی نہیں بھولایا جائے گا جب کوئی محبت کرنے والا جدا ہوا ہو۔ والد کا رشتہ ماں کے بعد تمام انسانی رشتوں میں مقدس اور اعلیٰ تصور کیا جاتا ہے ۔ میرے والد کا شمار بھی ایسے ہی عظیم لوگوں میں ہوتا ہے۔ جنہوں نے آپنی زندگی کی آخری سانس تک آپنی اولاد کی تربیت اور محبت کے لئے وقف کیا تھا۔والدکی زندگی میں اولاد معاشرے کے رسم رواج کے بندھن سے آزادہوتے ہیں ۔ اُن کی نیک دعائیں ہمیشہ ہمارے پاس ہوتے ہیں۔
والد محترم کو اللہ تعالیٰ نے بہت ساری نعمتوں سے نوازنے کے ساتھ ساتھ عاجزی اور انکساری کی بہت بڑی دولت عطاء کی تھی۔ میرے پاپا جان ہم سے بچھڑ گئے۔ مگر ان کی یادیں اور اُن کی جدائی کا درد آج بھی تازہ ہے۔ اُن کی محبت اور یادیں اس درد بھرے دل کو کبھی آنسوؤں کی طوفان میں بہاتے ہیں۔ کبھی خشک صحر اکے دھوپ میں جلاتے ہیں۔ پاپا جان گھر کی تمام رنگینوں کو آپنے ساتھ ہی لے گئے۔
اگرچہ یہ دنیا عارضی ہے۔ اوراس کو سب نے ایک نہ ایک دن چھوڑنا ہی ہے۔ لیکن کچھ رشتے ایسے ہوتے ہیں۔ جن میں والد خاص طور پر شامل ہیں۔ ان کی اچانک جدائی کا سوچ کر سب کچھ اندر سے ٹوٹ جاتا ہے۔ لوگوں کی زبانی یہ سن کر مجھے خوشی ہوتی ہے۔ کہ میں ایک ایسے باپ کی بیٹی ہوں۔ جس نے آپنی محنت، لگن، شوق، دیانت داری اور وفاداری کے ساتھ ساتھ آپنے قائم کردہ اصولوں، خیالات، سوچ، فکر، آخلاقی معیار کو برقرار رکھتے ہوئے ایک بھر پور زندگی گزاری ہے۔ اور اس کا عملی اعتراف سبھی کرتے ہیں۔
پاپا جان کوکئی بارخواب میں دیکھا وہ سفیدکپڑوں میں مسکراہتے ہوئے میرے سامنے کھڑے نظرآتے ہیں ۔میں اُن سے لپٹ کرکتنی باتیں کی۔ گلے شکوے کئے۔ اوربہت روئی۔مگراسی لمحے آنکھوں کا کھل جانے کالمحہ کسی سزاسے کم نہیں ہوتا۔میرے پیارے پیارے پاپا جان آپ کی بیٹی ہر لمحہ آپ کو دعاؤں میں یاد رکھتی ہے۔ ،بارگاہ الہی میں آپ کے بڑے درجات اوراونچے مرتبوں پہ فائز ہونے کی دعاکرتی ہوں ۔اس وقت میں آپنے آپ کوتنہا اوراداس محسوس کرتی ہوں۔ آپ کے ہوتےہوۓ مجھے کبھی کوئی پریشانی نہیں ہوئی، ایسا لگتا تھا ، جیسے کسی گھنے شجر کی چھاؤں میں ہوں۔ اور… اُن کے اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد سب کا ساتھ میسّر ہونے کے باوجودایسا محسوس ہوا، جیسے یک دَم ہی میرا بچپن، میری بے فکری کا زمانہ ختم ہوگیا ہو۔
۔مگرمیں ذاتی طور پر آج جو کچھ بھی ہوں، جو عزت ملی ہے ۔اس میں اللہ تعالیٰ کی فضل کرم اور میرے والد کی محنت اوردعاوں کانتیجہ شامل ہے۔ میرا سرفخرسے بلند ہوتاہے ۔جب لوگ شاندار الفاظ میں میرے والد کی خدمات، شفقتوں اور محبّتوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ حقیقی معنوں میں وہ ایک اچھے انسان دلیر اور نرم دل اور خدا ترس نیک اور شفیق باپ تھے۔۔ میری سب سے التجاء ہے۔ کہ جن خوش بخت لوگوں کے والد ابھی حیات ہیں، وہ اْن کی قدر کریں،اْن کی خدمت کریں،اْن کی فرمابرداری کریں، اْنکو ہر حال میں خوش رکھیں۔اللہ تعالیٰ پاپا جان کے درجات کو بلند فرمائے ۔اور ان کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا کرے آمین
"آج تک دل کو ہے اس کے لوٹ آنے کی آمید
آج تک ٹھہری ہوئی ہے زندگی اپنی جگہ"""""
لاکھ چاہا کہ اس کو بھول جائوں قتیلؔ
حوصلے اپنی جگہ ہیں، بے بسی آپنی جگہ"""""