تحرير ۔فرزانہ جبيں سے۔محو حيرت ہوں اردو کيا سے کيا ہوگٸ ہے

 

تحریر"   فرزانہ جبیں۔

 محوحیرت ہوں۔ کہ اردو کیا سے کیا ہو گئی۔

  آج جس موضوع پر لکھنے کی جسارت کر رہی ہوں۔ وہ ہے ( محو حیرت ہوں کہ اردو کیا سے کیا ہو گی)

 دیکھنے میں بڑا عجیب موضوع لگ رہا ہے۔ لیکن اگر سوچا جائے۔ تو اس پر آظہار خیال کرنے سے پہلے یہ کہوں گی۔  کہ بہت افسوس ہوتا ہے۔ کہ جس زبان کو قومی زبان کا درجہ دیا گیا۔ اس کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیوں؟

 میں تو یہ کہوں گی۔ کہ ہر زبان خوبصورت ہے۔ لیکن اردو میری پسندیدہ زبان ہے- جب سے ہوش سنبھالا  ہے۔ آپنے ارد گرد ادبی ماحول دیکھا ہے۔میری والدہ نے میری اردو بہتر کرنے  پر بہت توجہ دی۔ وہ ہمیشہ یہی کہتی تھیں۔ کہ پہلے آپنی زبان پرعبور حاصل ہونا چاہیے۔

  بانئ پاکستان نے بھی اردو کی حمایت و تائید کی ۔اس کا ثبوت24 مارچ1948 میں ڈھاکہ میں کیے جانے والے خطاب سے ملتا ہے۔

  انہوں نے فرمایا میں واضح بتا دینا چاہتا ہوں۔ کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہو گی۔

  لیکن افسوس کہ ہمارے ہاں عجیب  سا رواج پیدا ہو گیا ہے ۔اردو کا مذاق اڑایا جاتا ہے ۔اور اردو بولنے والے کو حقیر سمجھا جاتا ہے۔ 

پچھلے دنوں کراچی کے ایک سکول میں طالب علم کو اردو کے  استاد نے اس کے منہ پر سیاہی مل دی۔

  مجھے تو اب یہ لگتا ہے ۔کہ ہم اب تک انگریز کے غلام ہیں۔ ہم آپنے اس رویے سے بچوں کو احساس محرومی کا مستقبل دے رہے ہیں۔

 اقبال  نے کیا خوب شعر میں بیان  کیا  ہے۔

آپنے ہی وطن میں مگر آج اکیلی۔       !

اردو ہے مرا نام میں ہوں خُسرو کی پہیلی۔۔

Post a Comment

Previous Post Next Post