مولانا محمد ازہر صاحب کی کتاب مسکراتے زخم پر تبصرہ
از:قلم۔ نورین خان پشاور
اے رب ذوالجلال والاکرام ہم گناہ گار بندے آپ سے ایسی معافی کے طلب گار ہیں کہ جس کے بعد ہم سے کوئی گناہ سر زد نہ ہو، ایسی صحت کہ جس کے بعد کوئی بیماری نہ ہو۔ ۔ رب العالمین سے دعاء ہے کہ وہ ہمیں اپنے رحم اور کرم دونوں سے نوازے اور ہمیں پانچوں وقت کی نمازیں پابندی وقت کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ یا اللہ ہمارے تمام مرحومین کی مغفرت فرما ان کے درجات بلند فرما، انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرما اور ہم سب کو اپنی آخرت کی فکر کرنے والا بنادے۔اس دعا کیساتھ امید ہے آپ سب ٹھیک ٹھاک ہونگے۔آج میں نے جس کتاب کا انتخاب کیا ہے وہ ہے جناب مولانا محمد ازہر صاحب کی مسکراتے زخم،اسکے ناشر ہے مکتبہ عرفان۔اس کتاب کے پیش لفظ میں مولانا صاحب نے لکھا ہے کہ یہ کتاب پندرہ روزہ جیش محمد ﷺ میں شائع ہونے والے سلسلے "چاک قفس سے" کی ابتدائی بتیس قسطوں اور انٹرویوز پر مبنی ہے۔
انڈیا کیوں؟ انڈیا کب؟ کیسے؟ کیوں جانا ہوا؟ وہاں پر کیا مشغولیات رہیں؟بابری مسجد پر کس طرح حاضری ہوئی؟ کشمیر کن مقاصد کے لئے جانا ہوا؟ گرفتاری کیسے ہوئی؟ تفتیش کے مراحل کسطرح گزرے؟ ابتدائی تین عقوبت خانوں میں کیا گزری؟ ان سب سوالوں کے جواب اس پہلے باب میں ہی مل جائنگے۔
مصنف لکھتے ہیں کہ میں ان دنوں افغانستان میں جہاد میں مصروف تھا۔اور کشمیر کی جہادی تحریک میں اپنا کمزور سا حصہ ڈال رہا تھا۔جہاد کی دعوت کے حوالے سے مختلف ملکوں اور شہروں میں دورے اور تقاریر بھی ہوتی تھیں اور جہاد کے عنوان سے تھوڑا بہت لکھنے کا بھی سلسلہ جاری تھا۔تنظیم کا دعوت وار شاد کا شعبہ اور ماہنامہ صدائے مجاہد کی ادارت بھی میرے ذمہ تھی،اور ساتھ ساتھ جامعہ العلوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن میں تدریس کی سعادت بھی حاصل تھیں۔بابری مسجد شہید ہوئی تو مجھے بہت صدمہ ہوا،کیونکہ اس دردناک سانحے سے کئی ماہ قبل میں اپنے رسالے میں "آہ بابری مسجد" کے عنوان سے اس موضوع پر لکھ چکا تھا۔میں نے اس دردانگیز مضمون کے ذریعے بابری مسجد کے گرد لگنے والی آگ کو بجھانے کی ایک ادنی کوشش کی تھی۔مجھے علم ہے کہ اس تحریر کو پڑھ کر بہت سے مسلمان اس وقت رو دئیے تھے۔اس دن کے بعد میں نے بابری مسجد کا درد اور رونا بانٹنا شروع کیا۔بابری مسجد کی شہادت پر پے درپے تقاریر ہوئیں اور اللہ پاک نے ان تقاریر کو دیکھتے ہی دیکھتے لاکھوں افراد کی کانوں اور دلوں میں پہنچا دیا تھا۔
میرے پسندیدہ اقتباسات
یہ حقیقت ہے کہ تیل کی دولت نے بہت سارے عربوں سے انسانیت اور دینی قیادت چھین لی ہے۔اور وہ ان اخلاق سے عاری ہوتے جارہے ہیں۔
عرب چاہتے تو پیٹرول کے خزانے کو استعمال کرکے ساری دنیا کے مسلمانوں کو آزادی دلا سکتے تھے،اور اسلام کی عظمت رفتہ کو بحال کر سکتے تھے۔مگر وہ تو خود پیٹرول میں بہہ کر غلامی میں پھنس چکے ہیں،اور اب ان سے انکی تہذیب و ثقافت اور انکا دین سب کچھ چھینا جارہا ہے۔
ایک زمانہ تھا عرب سوکھی روٹی کھا کر دنیا پر حکومت کرتا تھا مگر آج وہ سونے چاندی میں نہا کر بھی محکوم ہیں اور اپنے ملکوں میں اجنبی اور غلام بنتے جا رہے ہیں۔
دنیا کی ریل پیل اللہ پاک جل جلالہ کے سامنے کوئی وقعت نہیں رکھتی۔یہ پاخانے کے ڈھیر کسی کے پاس زیادہ ہو یا کم اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔چنانچہ شاہ فیصل فرماتے تھے کہ اگر اس پیٹرول کی وجہ سے ہماری اسلامی عزت یا غیرت پر آنچ آئی تو ہم اپنے محلات گرا کر دوبارہ خیموں میں چلے جائنگے اور تلواروں کے سائے تلے عزت لی زندگی گذاریں گے۔کاش شاہ فیصل مرحوم کی یہ سوچ انکے جانشینوں میں بھی منتقل ہو جائے اور وہ اپنے دین اور اپنی قوم کا اس قدر سستہ سودا نا کریں جس قدر آج ہو رہا ہے اور یہودی منہ چھپا چھپا کر ہم مسلمانوں پر ہنس رہے ہیں۔
شراب کی کثرت نے پورے ہندوستان کو بدبودار بنا کے رکھا ہے،یہاں بھی ہر طرف یہی غلاظت چل رہی تھی۔حکومت کے اہلکار ہر وقت شراب کی جستجو یا پھر اسکی مستی میں رہتے ہیں۔جنہیں یہ نہیں ملتی وہ ہر چیز داو پر لگا کر حاصل کرنے کی فکر میں لگے رہتے ہیں۔اور جنہیں مل جاتی ہے وہ اس قدر پیتے ہیں کہ ھوش میں نہیں رہتے۔ام الخبائث کی پکڑ میں آئے ہوئے یہ لوگ ائیر پورٹ پر بکثرت موجود تھے۔اللہ تعالی مسلمانوں کو اور اسلامی ممالک کو اس لعنت سے محفوظ رکھیں آمین۔شراب اور ایڈز نے ہندوستان کو اندر سے بالکل کھوکھلا کر دیا ہے۔
آج تو ہم سب گھر والے "شب" کررہے ہیں۔یہ جملہ میرے لئے کچھ اجنبی سا تھا۔سجاد صاحب نے تشریح کرتے ہوئے بتایا کہ کشمیر کے لوگ جمعرات کی رات عبادت کرنے کے لئے جاگنے کو شب کرنا کہتے ہیں۔چنانچہ جس جمعرات کو انہوں نے شب کرنی ہو تو اس رات گھر کے تمام افراد جاگتے رہتے ہیں اور ان میں سے بیشتر لوگ عبادت کرتے ہیں اور کچھ حلوہ بناتے ہیں،اور یوں انکی پوری رات نماز پڑھنے اور حلوہ بنانے میں گزر جاتی ہیں۔ہمارے میزبان بھی آج رات شب کر رہے تھے چنانچہ دسترخوان پر کافی سارے میوے جمع تھے اور ان میں میووں سے بھرپور حلوہ بھی تھا۔
خلافت کی طاقت سے بہت سارے فتنے رک جاتے تھے مگر اب وہ طاقت ماضی کی داستان بن گئی ہے۔اب تو جمہوریت ہے۔باپ کو بیٹے سے جدا کرنے والی،بھائی کو بھائی کا دشمن بنانے والی۔خباثت اور فحاشی کو تحفظ دینے والی۔
جب تک گندگی اور غلاظت صاف نا ہو تب تک خوشبو چھڑکنے کا کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟ جب تک غیر اللہ کی گندگی دل سے نا نکلے اس وقت اللہ پاک کو ماننا،نا ماننے سے بدتر ہے۔اس لئے مشرک کافر سے زیادہ بدتر ہے کیونکہ کافر انکار کرتا ہے جبکہ مشرک کافر اللہ پاک کو دوسروں کیساتھ شریک کرکے اللہ پاک کی توہین کرتا ہے اور توہین انکار سے زیادہ بڑا گناہ ہے۔
سب سے مزے کی بات مجھے اس کتاب میں یہ لگی کہ ہندوستانی عقوبت خانوں میں بےگناہ مجاہدین نے ان مشرک کافر سپاہیوں کے بڑے مزے مزے کے نام رکھے ہوئے تھے مثال کے طور پر مولانا صاحب لکھتے ہیں کہ۔۔۔
رکشه
سی ایم پی (سینٹرل ملٹری پولیس کا اہلکار آسام کا ہندو فوجی وہ اپنے نام کا آخری حصہ رائے بتا تا تھا۔ رکشے کے ساتھ اس کی کئی طرح سے مشابہت تھی اس لیے مجاہدین نے اسے اس نام سے نواز رکھا تھا۔ وہ اپنی گفتگو میں ٹ کا بہت استعمال کرتا تھا یہ لفظ رکشے کی آواز کے زیادہ مشابہ ہے مثلاً وہ کہتا تھا میرے ماٹا پٹا مجھے بوٹ یاڈ کٹے ہیں (میرے ما تا پتا ( ماں باپ ) مجھے بہت یاد
کرتے ہیں)
۲۔ وہ تیز چلتا تھا اور رکشے کی طرح اچانک موڑ کاٹتا تھا۔
۳۔ قیدیوں کا سامان خرید کر لانا اس کی ذمہ داری تھی لیکن اس کے ریٹ رکشے کے میٹر کی طرح تھے۔ بقول بعض ساتھیوں کے یہ شخص اس قدر لالچی ہے کہ اگر اسے رقم دی جائے تو نمازیں بھی پڑھے گا۔ الغرض اس کی ہر حرکت صرف اور صرف پیسے کی خاطر تھی اور اس کا میٹر ہر
وقت رواں رہتا تھا۔ ویسے سچ یہ ہے کہ وہ دیکھنے میں بھی رکشے جیسا لگتا تھا۔
سنگھاڑا۔۔ یہ بڑی مونچھوں والا ایک فوجی تھا بظاہر کافی مہذب معلوم ہوتا تھا اور اکثر ہندوستانیوں کی طرح خود کو عظمند سمجھتا تھا۔ اس کی موچھیں اور خدو خال دیکھ کر دریائی مچھلی سنگھاڑا یاد آ جاتی تھی! اصلی نام معلوم نہ ہونے کی وجہ سے ساتھی آپس میں اس کا تذکرہ اسی نام سے کیا کرتے تھے ۔
ڈسپلن۔۔۔ یہ بہت احمق حوالدار تھا ۔ وارڈ میں آتے ہی کہتا تھا کہ سارے ڈسپلن سے رہا کرو ۔ اس کے اس اعلان کی وجہ سے اس کا نام ڈسپلن پر گیا تھا۔ آزاد کشمیر کے ایک ساتھی اسے بوجا ( بندر ) بھی کہا کرتے تھے۔ اس شخص کی حماقتوں پر اگر قلم اٹھایا جائے تو ایک عبرتناک کتاب وجود میں آسکتی ہے۔ شروع میں اس نے مجاہدین پر کافی خظلم وستم ڈھائے لیکن جب زمین مجاہدین نے اس کے ساتھ کھیلنا شروع کیا تو وہ مجاہدین کے ہاتھوں کا کھلونا بن کر رہ گیا۔ کوئی اسے زمین پر لٹاتا تھا۔ کوئی اس سے سلاخوں پر مگے مروا تا تھا کوئی اسے دوسرے فوجیوں سے لڑا تا تھا وہ چرس کے نشے کا عادی تھا۔ اکثر کہا کرتا تھا کہ میں تو بھگوان سے کہوں گا کہ دوسرے جنم میں مجھے سور ( خنزیر ) بنا دے، سارا دن آرام سے کیچڑ میں پڑا رہوں گا۔ ہم اسے کہتے جناب آپ کے ہاتھ لوہے کی طرح مضبوط لگتے ہیں تو اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں کو لوہے کی سلاخوں پر مارنے لگ جاتا جس سے پہنچنے والی تکلیف اس کے چہرے پر صاف نظر آتی۔ لیکن وہ تعریف کیلئے شوق میں مسلسل ملے مارتارہتا تھا۔ وہ اکثر اپنی غیرت اور انتقام کا ایک واقعہ سنایا کرتا تھا یہ واقعہ چونکہ انڈین حکومت کی پالیسیوں اور اس کے مزاج کو سمجھنے میں کافی مددگار ثابت ہوسکتا ہے اس لیے مجبوراً ذکر کیا جارہا ہے۔ وہ کہتا تھا کہ ایک بدمعاش شخص نے ایک بار میری پٹائی کردی۔ میں بھاگ کر اپنی بڑی بہن کے پاس گیا اور اسے پورا قصہ سنایا۔ میری بہن سخت غصے میں آگئی اور کہنے لگی اس نے پرتھوی راج چوہان جیسے راجہ کی نسل پر ہاتھ اٹھایا ہے میں اسے نہیں بخشوں گی ۔اگلے دن وہ بدمعاش بازارگیا تو میری بہن راستے میں چھپ کر کھڑی ہوگئی۔ وہ قریب سے گزرا تو بہن نے اپنی ساڑھی یا پلو پھاڑا کہ اس نے میری عزت پر ہاتھ اٹھایا ہے۔ لوگوں نے جب یہ بات سنی اور دل سے خوب دھنائی کر دی۔ شام کو وہ پٹیاں باندھ کر جارہا تھا تو میں نے اسے کہا؟ دیکھا ہمارا انتظام ۔ آج ہندوستان بھی مجاہدین اور پاکستان کو اسی طرح بد نام کرنے کی کوشش کرتا ؟ رہتا ہے اور یہ نہیں سوچتا کہ اس میں اس کی اپنی کتنی بے عزتی اور بے غیرتی ہے۔
آخر میں یہ کہ مولانا صاحب کی کتاب مسکراتے زخم بہت ہی اعلی اور بہترین کتاب ہے آپ لوگ اسے ضرور پڑھیں اور معلومات حاصل کریں شکریہ۔