یوم مئی، مزدوروں کا عالمی دن، ہم سب کا عالمی دن
تحریر ٹیلی ویژن، ریڈیو تجزیہ نگار ،انجینیئر، سینیئر صحافی سحر ندیم
یوم مئی نہ صرف مزدوروں کا عالمی دن ہے بلکہ یہ ہم سب کا دن ہے۔
سوچنا تو یہ ہے کہ اگر یہ مزدور نہ ہوتے، بہت سے چھوٹے چھوٹے کاموں سے ہمیں جواب دے دیں یا کام کرنے سے پہلے ہی ہمیں انکار کر دیں، تو دیکھیے کہ کون ایسا ہوگا جو تپتی دھوپ میں سڑکوں پر نکلے گا اور ہمارے مکانوں کو پینٹ کرے گا، کون ہمارے لیے دروازے کھڑکیاں بنائے گا، کون گھروں پر پلستر کرے گا، وہ کون ہوگا جوگھروں کے آگے سے فالتو کچرہ اٹھا کر لے کر جائے گا، کون ایسا ہوگا جو ہمارے خوبصورت سرسبزلانوں میں سے گھاس کی کٹائیاں کرے گا، پھول بوٹے اگائے گا اور محنتیں کرے گا۔ ہماری گاڑیاں کون صاف کرے گا۔ مزدور نہ ہوگا توسڑکوں پر کون پتھر کوٹے گا، کون ان سڑکوں پر تارکول بچھائے گا۔
اسی طرح کھمبوں پر چڑھنے والے، بجلی کی تاروں کو جوڑنے اور ان کی مرمت کرنے والے، مختلف طرح کی کیبلز کو چیک کرنے والے، مختلف قسم کی گھریلو اور دفتری برقی آلات کی مرمت کرنے والے، برقی آلات کو فٹ کرنے والے تمام لوگ وغیرہ ۔
چھوٹے لیول پر چیزوں کی مرمت کرنے والے، مختلف طرح کی مشینری کو ٹھیک کرنے والے، سڑکوں کے کنارے بیٹھ کر دوپٹوں کو پیکو کرنے والے، چھوٹے درجے کے کڑھائی کرنے والے یہ سب مزدورہی تو ہیں۔
ٹھیلوں پر گول گپے بیچنے والے، دہی بڑے تیار کرنے والے ،رول سموسے تیار کرنے والے لوگ، سڑک کنارے پیزا برگر اور شوار ما بنانے والے لوگ، سستے دام پر قلفیاں ،آئس کریم اور شربت بیچنے والے لوگ وغیرہ۔
سڑک کے کنارے شیو کرنے والے اور بال کاٹنے والے لوگ، مالش کرنے والے لوگ بھی مزدوری کی کیٹگری میں ہی شامل کیے جاتے ہیں۔
سوچنا تو یہ ہے کہ اگر یہ سب نہ ہوتے تو شہر کا کاروبار کیسے چلتا اور ہمارے روزانہ کی بنیاد پر تمام قسم کےکام کون کرتا۔
پہلا کام تو یہ کرنا ہے کہ مزدور کی اہمیت کو تسلیم کرنا ہے۔
اور اس سے بھی ضروری کام یہ ہے کہ مزدور کی عزت کرنا سیکھنا ہے۔
ہم مزدور کو اجرت تو دیتے ہیں لیکن اس کی عزت نہیں کر پاتے۔ اگر ہم صرف اپنے دل میں اور ذہن میں مزدور کی جگہ کو تسلیم کر لیں تو یقین کیجئے یہ معاشرے کے ایسے پسے ہوئے لوگوں کا درجہ ہے جو صرف عزت ملنے پر ہی تن من اور دھن سے ہم پر اپنی زندگی فدا کر دے گا اور مزید محنت اور کاوش کے ساتھ اپنی خدمات کو انجام دے گا۔