آگہی کا عذاب'سال 2030 اور ہم۔۔۔۔۔

آگہی کا عذاب ،سال2030 اور ہم تحریر ریڈیو ،ٹیلی ویژن تجزیہ نگار، سینیئر صحافی، "انجینیئر سحر ندیم" سال 2024 اپنے ساتھ جس قسم کی مہنگائی اور مصیبتوں کا طوفان لے کر آیا وہ سب حیران کن ، ہوش ربااور دید کے قابل ہیں۔ ملک میں ہر لمحہ بڑھتی ہوئی سیاسی خانہ جنگی کو دیکھیے، صحت کی سہولیات کا فقدان دیکھیے، طلبا کے ذہن کے انتشار کی کیفیت دیکھیے، بجلی کے بلوں کی رفتار دیکھیے، گیس کی فراہمی نہ ہونے کے باوجود آنے والے بلز کا حساب لگائیے۔ یہ لمبی لمبی ڈگریوں کے بعد بے روزگار کی بڑھتی ہوئی سطح کو جانچیے۔ ملک میں تقریبا ہر قسم کے نظام کی درہم برہمی کو دیکھیے۔ مردوں کے لیے ناکافی نوکریاں اور فیلڈ میں بھرپور کام نہ کرنے والی عورتوں کی بڑھتی ہوئی شرح کچھ چیک کیجیے۔ آبادی کا بڑھنا دیکھیے۔ سکول اور کالجز کی فیسوں میں روز بروز اضافہ چیک کیجئے۔ گھروں میں راشن کی قلت دیکھیے۔ غرض یہ کہ 2024 میں آئی ایم ایف کی اقساط لاگو ہو جانے کے بعد ملک کا لٹنا دیکھیے۔ یہ سب مصیبتوں اور مشکلات کی بھرمار ہم سب کے لیے ایک بہت بڑا اور زبردست چیلنج ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ اس میں پڑھے لکھے افراد کے علاوہ انگوٹھا چھاپ افراد ، گھروں میں موجود بزرگ، اور وطن عزیز میں موجود تمام لیڈیزکو بھی اپنے ذہن پر زور ڈالنا پڑے گا۔ بلکہ فوری طور پر کچھ اسٹیپ لینے پڑیں گے تاکہ ملک کے وجود کو دنیا کے نقشے پر بچایا جا سکے۔ ہم سب کو انفرادی اور اجتماعی طور پر 2030 کے لیے آج سے ہی تیاری کرنی ہے۔ معاشرے میں موجود تمام طبقات کو اس کے لیے بہت ہی سنجیدہ ہو کر سوچنا پڑے گا۔ سیاسی لیڈران اور ان کے تمام تر ورکر حضرات، ڈاکٹرز ،انجینیئرز، وکلا حضرات، جج حضرات، سب سے ضروری طبقہ اساتذہ و پروفیسرز حضرات، اس سے بھی ضروری طبقہ ریڈیو، اخبارات، رسائل، جرائد ،چھاپنے والے حضرات، ٹیلی ویژن کی فیلڈ سے وابستہ افراد، فلم اور تھیٹر سے وابستہ افراد، اور ہر قسم کے سوشل میڈیا والے افراد، صحافت سے وابستہ افراد اور ہمارے ملک کے نوجوان طلبا کی جماعت وغیرہ وغیرہ۔ ہم سب کو فل فور ملک کے لیے سوچنا پڑے گا۔ کہ ہم سال 2024 میں کہاں کھڑے ہیں اور 2030 میں اس ملک کو کیسے چلانا چاہتے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ سوچ کر اپنے اپنے گھروں میں بیٹھے رہیں۔ بلکہ ہمیں ایک جان ہو کر کچھ فیصلے پڑیں گے تاکہ وطن عزیز کو بچایا بھی جا سکے اور آگے لے کر جایا جا سکے۔

Post a Comment

Previous Post Next Post